تنہائی میرے وجود کا حصہ

تنہا شخص تنہائی میں بھرپور جینے کا عادی ہے کیونکہ وادی تنہائی ہی اس کی ذات ہے اس کی ذات میں ہی مکمل وادی تنہائی ہے ایسا تنہائی پسند انسان ایک دم ہونے والے شور و غل سے گھبرا سکتا ہے۔۔ ایسے شخص کے ارد گرد کے شور ہنگامے سے سب اس سے لاپرواہ ہوتے ہیں جس کے لیے وہ تیار نہیں ہوتا اس کے وجود سے لاپرواہ اس کی موجودگی سے لاپرواہ ایسے تنہا انسان سے ہمدردی ہونی چاہیے جس کا وجود ہی بے معنیٰ ہو اس پورے نظارے میں سب ایک ساتھ ہنستے ہنساتے باتیں کرتے مصروف لیکن صرف ایک وجود کی خاموشی چپ سے بے خبر اس کی وجود کی موجودگی کے احساس سے دور۔۔ ایک الگ انسان کا وجود منظر پر ہوتا ہے ۔۔ ایسے تنہا انسان سے ہمدردی کیسے نہ ہو ۔۔ پھر اس ہی ہمدردی سے وہ تنہا شخص گھبرا جاتا ہے کیونکہ وہ ہمدردی بھی اس کی اپنی ہوتی ہے ایسے تنہا انسان کا تو تنہا رہنا ہی بہتر ہے۔۔۔ اسے احساس نہیں ہوگا اس کے وجود سے لاپرواہی بھی برتی جا سکتی ہے۔۔ اس کی ہمت کو تو آزمائش سے بچت ہوگی ۔۔ ان پلوں میں وہ نظر انداز بھی ہو سکتا ہے جن پلوں میں سب ایک دوسرے کا ساتھ ان پلوں کو جی رہے ہوں۔۔ سب ایک ساتھ جاندار مسکراہٹ دے رہے ہوں قہقہے لگا رہے ہوں پھر ایسی محفلوں میں آہستہ اہستہ اپنی بھلائی کی خاطر جانا ترک کر دینا ہی اس تنہا انسان کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔۔ ایسی اذیت ناقابلِ برداشت ہے کہ آپ کے وجود کا انکار کیا جائے آپ کے وجود کو فراموش کیا جائے لیکن ان کا کیا جو اتنے تنہا ہیں جن کے پاس اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق بھی نہ ہو کہ ایسی محفلوں میں اسے نہیں جانا بلکہ اسے جانا ہی جانا ہے کیونکہ وہ تنہا ہے تنہا نہیں رہ سکتا اسے ساتھ ہی چلنا ہے جدھر سب جائیں جن سے وہ جڑا ہے پھر چاہے وہ انسان ان سب میں کہیں کسی جگہ کسی موڑ پر کسی چاندنی رات میں تنہا ہی کیوں نہ رہ جائے پھر بھی اسے چلتے ہی رہنا ہے کیونکہ وہ بے نام تنہا نہیں ہے اس کا نام ہے اس کے وجود کا حصہ ۔۔اس کا نام۔۔ وہ بھی گنتی میں آتا ہے ۔۔ جب گنتی ہونے لگتی ہے اس کے حصے میں بھی کچھ تو ضرور آتا ہے اس گنتی میں اسے جو مل جائے چاہے چند پل کی توجہ ہو خلوص ہو یا کسی کی مسکراہٹ۔۔ بس وہی اس کی متاع حیات ہے وہی پل اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔۔ ایسے تنہا انسان سے پھر ہمدردی نہیں ہوتی اس پر رشک آتا ہے اس کے پاس سب ہے شکر اس پر واجب ہونا چاہئے ۔۔ اس کے پاس تو ہمت ہے ۔۔ یہ تو ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں ۔۔ پھر یہ مسکرانے میں اتنی کنجوسی کیوں کرتا ہے بولنے میں اظہار خیال میں اظہار محبت میں یہ اتنا کنجوس کیوں ہے یہ رحم کے معاملات میں بھی کنجوسی کیوں برتنے لگا ہے یہ کون ہے اس تنہا انسان کو کیا کہیں ایسے تنہا انسان پر تعجب ہوتا ہے۔۔ جو بولتا تو ہے پر بولتا نہیں ہے سنتا تو ہے پر سننے میں اسے کچھ نہیں آتا کیا یہ بہرا ہے ؟؟ کیا اس کا ضمیر مر چکا ہے ؟؟ کیا اسے کوئی ذہنی خلا ہے ۔۔؟؟ نہیں نہیں سنو یہ تو بہت تنہا انسان ہے اس کی تو تنہائی کی ساتھی صرف اس کی اپنی ذاتی آواز ہے وہ اپنی تنہائی کے شور سے گھبرایا ہوا ہے ڈرا سہما پر اس کا ڈر نظر نہیں آتا یہ ڈرا ہوا ہے کہ کہیں ویسی کوئی تکلیف دوسرا انسان نہ دیکھے نہ محسوس کرے جو وہ کاٹ چکا ہے برادشت کر چکا ہے سہ چکا ہے وہ اپنی تکلیف دہ تنہائی کو قبول نہیں کر پایا اس لیے اس کی اپنی آواز اسے قبول کروا رہی ہے ۔۔ ارے اس کا تو ضمیر بھی زندہ ہے ہم انسان کتنے جلدباز ہیں جلدی رائے قائم کر لیتے ہیں یہ تو بہت معصوم نکلا اس معصومیت میں تو یہ ایک دم بہت روشن دکھنے لگا ہے کتنا پر خیال انسان ہے ۔۔ لیکن پھر بھی تنہا ہے آخر پھر کیوں اتنا تنہا ہے ۔۔ اسے تو گھرا ہونا چاہئے لوگوں میں قہقہوں میں ۔۔ ایسے انسان کی تنہائی اتنی کیوں محسوس ہو رہی ہے یہ تو گھرا ہوا ہے۔۔ اس منظر میں پھر ہر زاویے سے تنہا کیوں دکھتا ہے ۔۔ کیونکہ ۔۔ ایسے انسان کی تنہائی اس شخص کے وجود کا حصہ ہے۔۔ یہ اپنی تنہائی کے بغیر نا مکمل ہے ۔۔ نا مکمل شخص کبھی تنہا نہیں ہوسکتا میرے خیال سے اور ایک مکمل شخص پوری وادی تنہائی کا مالک ٹھہر سکتا ہے ۔۔ ایسے انسان بہت کم لیکن بہت پائیدار ہیں ۔۔۔ تنہا شخص کی فکریں محدود ہمت لاجواب ہوتی ہے وہ اپنی آوازوں سے لڑتا ہے وہ صرف اپنی تنہائی کو جیتا ہے اپنی تنہائی میں فیصلے کرتا ہے اور کئی فیصلے رد کرتا ہے ۔۔ اس کی فکر ہی اس کی تنہائی ہے وادی تنہائی فکروں میں بٹی ہوئی ہے ۔۔ اس وادی میں کئی فکریں ہیں جن کے کئی مطلب ہیں کئی نام اور کئی بے نام۔۔۔ اس کا وجود اس کی تنہائی میں سکون سے رہ سکتا ہے ۔۔ ورنہ منتشر ہو جاتا ہے ۔۔ ایسے تنہا انسان کی زندگی میں کسی دوسرے انسان سے باتیں خطرے سے خالی نہیں ۔۔ بلکہ ۔۔ ایسے انسان بہت خطرناک حد تک پرکشش پر اثر ہوتے ہیں ایسے شخص کی باتیں پہروں سب کے ذہنوں پر سوار رہ سکتی ہیں ان کی ایک پل کی مسکراہٹ قہقہ بھی بہتوں سے جاندار ہوتا ہے ان کا ایک دم کھلکھلانا کسی بات پر رائے دینا ایک دم سب کو سوچنے پر مجبور کرجاتا ہے جیسے وقت تھما ہو ایک پل کے لیے۔۔ ایسے تنہا انسان پر رشک آتا ہے اس پر تو شکر واجب ہے کیا نہیں ہے اس کے پاس ۔۔؟؟ پھر بھی تنہا ہے ۔۔ یہ تنہا کیوں ہے ۔۔ کیونکہ تنہائی اس کے وجود کا حصہ ہے وہ اپنی تنہائی کے بغیر نا مکمل ہے ۔۔ اتنا تو سمجھ ہی جانا چاہیے اب تک۔۔ یہ تنہا کیوں ہے۔۔ جیسے کوئی تاج اپنے راجا کے بغیر نامکمل ہو جیسے کوئی رانی اور جیسے کوئی راجدھانی اپنے حکمران کے بغیر نا مکمل ۔۔۔۔ اسی طرح یہ شخص اپنی تنہائی کے بغیر نا مکمل ۔۔ اس سے ہمدردی کیسی ارے اس پر تو رشک آتا ہے ہمدردی تو لاچاروں سے کی جاتی ہے یہ تو حاکم ہے مالک ہے اپنی ذات کی وادی کا ۔۔ جس پر اس کو پوری طاقت ہے ۔۔ جس میں اس کی مرضی کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا ہے۔۔ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ۔۔ چاہے پھر اس کا اپنا کوئی احساس ہی کیوں نہ ہو اس کی مرضی کے بغیر اس کے تنہائی کا ساتھی نہیں رہ سکتا ۔۔ اس پر تو رشک آتا ہے ۔۔۔ شکر اس پر واجب ہے ۔۔ شکر اس پر واجب ہے ۔۔ شکر اس پر واجب ہے ۔۔۔ اسے تو شکر کرنا ہی کرنا چاہیے ۔۔۔

Leave a comment